اخلاق کا مظاہرہ کریں

اخلاق کا مظاہرہ کریں

آج کل لوگ سوشل میڈیا پرتعلق بنانے کے بہت مشتاق ہوچکے ہیں، میں دیکھ رہاہوتا ہوں کہ لوگ مختلف سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر سوشل نیٹ ورکنگ بنانے میں لگے ہوتے ہیں جو کہ موجودہ دور میں ایک اچھی بات ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اچھے مقصد کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔ لیکن میں محسوس کررہا ہوں کہ ایک مسئلہ جو کہ عرصہ درازسے سراٹھائے ہوئے ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ شدت اختیارکررہا ہے وہ ہے خود سے ہی کسی کے متعلق رائے قائم کرلینا یا پھرکسی بھی چیز کا غلط مطلب نکال لینا،دوسروں کونیچا دکھانا،بتمیزی کے کلچرکو فروغ دینا،یا پھرسوشل نیٹ ورکنگ کا ایک دوسرے کی عزتوں سے کھلواڑ کرنے کیلئے استعمال کرنا،بعض دفعہ تو لڑکے لڑکیاں  ایک دوسرے کی تلاش کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال عبادت سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں،مقصدٹائم پاس کرنا ہوتا ہے اور اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے،بعض دفعہ تو شادی کے وعدے وعید بھی کیے جاتے ہیں لیکن محض مقصد اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کرنا ہوتا ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب برائیوں نے ہی پنجے گاڑے ہوئے ہیں اچھے کام بھی بہت ہورہے ہیں۔

 

 کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو آپ سوچ رہے ہوتے ہیں جس کے بارے سوچ رہے ہوتے ہیں وہ اس سے بلکل برعکس ہوتا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہوتا ہے ذاتی حیثیت میں نہیں اور دوسرا ہمارا دماغ تعمیری نہیں تخریبی حراست میں ہوتا ہے،اور آہستہ آہستہ یہ چیزشدت اختیار کرجاتی ہے جوکہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے اوربدنامی کا باعث بھی،معاشرہ چونکہ بنیادی طور پرلوگوں کے ایک ایسے گروہ کی شکل ہوتا ہے جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں مشترک روابط آپس میں  جڑے ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ افراد کا مذہب یا پھر قوم ایک ہی ہو۔جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے متعلق لب کشائی کی جاتی ہے تو اس کا نام عام طور پر کسی معاشرے کے طور پر سامنے آتا ہے، جیسا کہ ہندوستانی معاشرہ، مغربی معاشرہ، یا پھر اسلامی معاشرہ۔ اسلام میں زندگی کی مشترکہ بنیادی ضروریات کو بے حد وسیع کیا گیا ہےاور بڑے ہی عمدہ طریقے سے ایک بہترین معاشرے کا دھانچہ پیش کیا گیا ہے جو کہ اور کہیں نہیں ملے گا۔

 

 نیکی اور خوشحالی کے معاشرے کاجو تصور قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ ایک ایسا تصور ہے جس کے خلاف معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں دم توڑ جاتی ہیں۔اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر قرآن کریم جو کہ اس مفاد کی دنیا میں انسان کا سچا اورمخلص دوست ہے جو بلکل صحیح رہنمائی کرتا ہے، جو اللہ کا خاص کلام ہے، جس کا نتیجہ قرب اللہ کی صورت میں ہی نکلتا ہے جو آپ کے لیے خیرورحمت کے دروازےکھولتا ہے، کو کھول کرسورۃ آل عمران میں آیت نمبر 110 کو توجہ سے پڑھیں تو ہم کو بہترین معاشرے بنانے کے متعلق رہنمائی ملے گی،آیت کا ترجمہ:(تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو)، قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ پر عمل کرلیا جائے تو سارے مسئلے ساری برائیاں اپنی موت آپ مرجائیں گی اور معاشرے میں پیار محبت امن و سکون و ذہنی آسودگی کی ایسی مثال قائم ہوگی کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ہوگی۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اچھا نہیں کہلایاجاسکتاجب تک اس میں رہنے والے  ہر فردکو مساوی انسان کا درجہ نہ دیا جائے،ہر انسان کیلئے وہی جذبات رکھیں جائیں جو خود کی ذات کیلئے رکھے جاتے ہیں۔

 

 اب آتے ہیں کالم کے عنوان کی جانب، اس وقت ہمارے معاشرے میں جو مسائل درپیش ہیں  انہیں میں  اوپر بیان کرچکا ہوں، سوشل تعلقات کی آڑمیں ہم  اخلاقیات کی وہ دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں جو کہ کسی معززمعاشرے کی عکاسی نہیں کرتا،دن با دن مزید بگاڑ پیدا ہوتا جارہا ہے عدم برداشت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دیکھا رہا ہوتا ہے ماں بہنوں کو بیچ میں ڈسکس کرنا، حلالی حرامی کے فتوے جاری کرنا لوگوں نے عادت بنا لی ہے اور وہ یہ کام اتنی تواتر سے کررہے ہوتے ہیں جیساکہ کوئی نیکی کا کام ہو،اور یہ سب کیا کس لیے جاتا ہے؟ جی ان کے کیلئے جن تک نہ عام طور پر رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی تمغہ حسن کارکردگی ملنا ہوتا ہے۔جس بات پر کیلئے طوفان بتمیزی برپا کی جاتی ہے اس ان کی زندگیوں میں کوئی عمل دخل ہی نہیں ہوتا، اب ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنےرکھتا ہوں نواز شریف براہے یا عمران خان اس موضوع کو لیکر ایک دوسرے کی ماں بہن کی کردار کشی کرنے سے کیا مقصود ہوگا؟ دوسری ایک چیز یہ بھی نوٹ کی ہے کہ کسی لڑکی کو فرینڈ ریکوسٹ بھیجے دی جائے اور وہ انہیں قبول کرلے تو فرینڈریکوسٹ بھیجنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جیسا اس کا پرپوزل قبول کرلیا گیا ہے، اوریہی چیز لڑکیوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ کوئی ٹھیک طریقے سے بات کرلے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ تو فدا ہوگیا ہے۔

 

میری نوجوان نسل سمیت سب سےالتماس ہے کہ اخلاق کا مظاہرہ کریں اوراپنے سوشل میڈیا کے حلقہ احباب کی قدر کریں تاکہ آپ  پروفیشنل گروتھ کر سکیں، یہاں رشتے تلاش کرنے سے، ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنےسے، ایک دوسرے کو گالیوں کے تحفے نوازنےسے ، فلرٹنگ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے اردگرد کے رشتوں کی دیکھ بھال کریں، سوشل میڈیا کو ایک دوسرے کی مدد کیلئے اور مثبت طریقے سےاستعمال کریں مظلوم طبقے کا نمائندہ بنے کسی کیلئے وجہ اذیت نہ بنےاور یہی اصول خواتین اور مرد حضرات دونوں کےلیے لاگو نافذالعمل ہونا چاہیے کیونکہ کسی کو کوئی حق نہیں کہ کسی کی تذلیل کرے کسی کا مذاق اڑائے،کسی کو نیچا دیکھائے،بس عزت سےاحترام کے ساتھ دوسروں کی سنے اور اپنی سنائے۔

 

 (نوٹ:مندرجہ بالا تحریر بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہوسکتا ہے، ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)