
تقدیس ثنا خوانی
محبوب خدا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدحت ، تعریف و توصیف اور شمائل و خصائص کا نظمی بیان نعت رسول مقبول کہلاتی ہے ، نعت گوئی کی تاریخ جناب رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ اولین نعت گو آپ کے چچا ابو طالب علیہ السلام اور صحابی رسول ﷺ حسان بن ثابت رضی اللہ شمارہوتے ہیں جبکہ دیگرنعت گوحضرات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔
عربی لغت میں نعت کے معانی مدحت رسول ہیں اور نعت گو کو ثناء خوان بھی کہا جاتا ہے،اولیاء اللہ نے بھی عشق رسول ﷺ کو پالینے کا ذریعہ نعت گوئی کو قرار دیا، اورسب اولیاء اللہ نے نعت گوئی کو ترویج دی اور نعتیہ کلام لکھے۔
نعت گوئی کا شرف صرف مسلمانوں کو ہی حاصل نہیں بلکہ بہت سے ہندو شعراء نے بھی مدحت سرائی کا اعزاز حاصل کیا ہے ان شعراء کی فہرست میں جسٹس بھگوان داس بھی شامل ہیں ، کنور مہندی سنگھ بیدی نے لازوال نعتیہ اشعار لکھے،
"عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں "
روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا استقبال دف کی تھاپ پر نعت خوانی سے کیا گیا۔ زیادہ ترنعت گوئی اور ثناخوانی کا سلسلہ بعد میں بھی جاری ہے اور اس اس سلسلے میں بڑے بڑے ثنا خوانوں کے نام آتے ہیں،قاری وحید ظفر قاسمی ، فصیح الدین سہروردی،محترمہ منیبہ صاحبہ، مرغوب احمد ہمدانی ، اعظم چشتی صاحب ان سب نے نہایت ادب و احترام اور عشق رسول میں مغلوب ہو کر نعت کی تقدیس کا حق ادا کیا اور پھر جناب عبدالروف روفی کی شہرہ آفاق نعت
" میٹھا میٹھا ہے میرے محمد کا نام"
جناب عبدالروف روفی صاحب نے اس نعت کی ادائیگی دف کی دھن پر کی جو کہ آسودگی ذہن کا باعث و سبب ٹھہرتی تھی،یہاں تک تو مدحت سرائی اور ثناخوانی کا تقدس ، احترام اور نذرانہ نعت بحضور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیش کرنے کے ادب و آداب قائم رہے ، مگر جب ڈش ٹی وی کا دور آیا تو ہم نے دیکھا اور سنا کہ پی ٹی وی پرنذرانہ نعت پیش کرنے کا جو اسلوب تھا وہ یکسرمحدود ہو کر رہ گیا جو مدحت سرا نعت کے تقدس کے پیش نظر نظریں جھکائے رکھتے تھے اور ادب کا یہ عالم تھا کہ رسول خدا محمد مصطفٰی ﷺ کی خدمت اقدس میں سانس روکے کھڑے ہوں وہ تقدس کی روش بدلتی نظر آنے لگی اب مدحت سرائی میں موسیقی کا عنصر واضح دکھائی دینے لگا ، موسیقی کی لے پر لہرانا اور ہاتھ لہرا لہرا کرمدحت سرائی شیوہ بن گیا۔
اب کا عالم الامین و الحفیظ اس دور میں جتنی کثرت سے فرقہ واریت بڑھی اسی رفتار سے نعت کی اصولی شکل اور ادب و آداب اس فرقہ واریت کی نظر ہوگئے، جتنے نجی چینلز وجود میں آئے اسلام کی ترویج کیلئے وہ اپنے ڈھنگ اوراسلوب سے ان کی ترویج کیلئے استعمال ہونے لگے اور اس فرقہ کے چاہنے والوں نے ان چینل کو پتہ نہیں کیا سمجھ لیا کہ ان کی پرستش ہونے لگی،
" اب اسلام کے در پر خود مسلمان ہوگیا "
ریٹنگ اورخودنمائی کی ریس میں اور ایک دوسرے سے سبقت لیجانے میں اور یہ باور کرانے کیلئے کہ سب سے زیادہ اسلام ہم جانتے ہیں، مختلف ٹی وی چینلز کےپلیٹ فارمزسے دین فروشوں نےاسلام کے ساتھ کھلواڑشروع کررکھاہے ۔اسلام میں بدعات لانے والے شایدیہ بھول رہےہیں کہ ہربدعت گمراہی اورہرگمراہی ذلالت اورہرذلالت نارجہنم کاایندھن بنتی ہے۔
(نوٹ:مندرجہ بالاتحریربلاگرکاذاتی نقطہ نظرہوسکتی ہے،ادارہ کااس سے متفق ہوناضروری نہیں)
بلاگز
تجویز کردہ خبریں
مقبول ترین
نیوز لیٹر۔
روزانہ کی بڑی خبریں حاصل کریں بذریعہ