سیاسی تماشے اور ملکی نقصان

سیاسی تماشے اور ملکی نقصان

1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس قدرانگریزسرکار نے مسلمانوں سے ایک خاص تعصب رکھا اورانتقامی سیاست کا نشانہ بنایا اسکے بعد برصغیرکے مسلم میں آزاد وطن کی ایسی خواہش پیدا ہوئی جو کہ آہستہ آہستہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی اس تحریک میں شدت اسوقت آئی جب 1937ء کے انتخابات میں کانگرس جیت گئی اورہندوستان کے تمام صوبوں میں کانگرسی حکومتیں قائم ہوئیں، مسلمان پہلے انگریزی تعصب سے تنگ تھے 1937 کے انتخابات کے بعد مسلمانوں کیخلاف ہندوؤں نے بھی عملی تعصب کا کھل کرمظاہرہ کیا جس کے باعث مسلمانوں کو عیاں ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں انکے حقوق محفوظ نہیں ہوسکتے،اور یوں مسلمانوں نے الگ وطن کیلئے سرجوڑ لیے ارادے پختہ کرلیے اور جدوجہد شروع کردی۔

 

قائداعظم نے دوقومی نظریے کی بنیاد پرمسلمانوں کی تحریک بڑے عمدہ طریقے سے چلائی۔ 23مارچ 1940ء کو لاہورمیں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہورمنظورہوئی جس کوبعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ آخرکارپاکستان ایک طویل جدوجہد اورلازوال قربانیوں کے عوض معرض وجود میں آگیا، اگربنیادی طورپردیکھا جائے توانگریز سرکارنے بھی سیاسی تماشے لگائے تفریق پیدا کی اور1937 میں بننے والی کانگرسی حکومت نے بھی، جس کا نتیجہ 14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کی شکل میں تھا، مسلمانوں کو آزاد وطن ملا تو خیال کیا جارہا تھا کہ جس وجوہات کی بنا پرایک علیحدہ وطن حاصل کیا گیا ان سے اب مکمل طورپر رہائی مل جائے گی، اوروطن عزیز میں رواداری امن وسکون اوراجتماعی مفادات کو فروغ ملے گا لیکن شومئی قسمت کہ یہ صرف خیال کی حد تک ہی رہا اورعملی طورپر سارے کے سارے خواب چکنا چورہوگئے۔

 

پاکستان بننے کے ساتھ ساتھ سیاسی تماشیں بھی شروع ہوگئے اور 75 سال گزرجانے کے باوجود ابھی بھی وہی تماشیں ہیں کہ جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے،قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنرجنرل اور لیاقت علی خان نے پہلے وزیراعظم کا منصب سنبھالا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں لیڈراپنی زندگی میں پاکستان کو آئین فراہم نہ کرسکے جس نے آزاد ریاست کی سمت متعین کرنا تھی۔ پاکستان کے پہلے دس سال محلاتی سازشوں اور سیاسی تماشوں کے سال ثابت ہوئے مذکورہ وقت کے دوران سات وزیراعظم آئے، سول سرونٹس اور جرنیل طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔ چوہدری غلام محمد اقتدار کا مرکز قرار پائے۔ 1956ء کا  پہلا آئین دیا گیا امریکہ کا اثرورسوخ اس قدر پڑچکا تھا کہ اس نے الیکشن میں امریکہ مخالف سیاسی رہنماؤں کی کامیابی کے ڈرسے سکندرمرزا اور جنرل ایوب کے ہاتھوں مارشل لاء لگوا دیا اور اس طرح مغربی پاکستان اورمشرقی پاکستان کے مابین سیاسی وجمہوری رشتہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا۔

 

مارشل لاء کے اس دور میں ترقیاتی کام تو ہوئے لیکن اس آڑمیں اقتدارکو طول دینے کیلئے ملکی سالمیت کوجس طرح داؤ پرلگایا گیا اسکی مثال کہیں نہیں ملتی، مغربی اورمشرقی پاکستان میں دوریاں تو قیام کے بعد ہی پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن اس دورمیں دونوں بازوؤں کے درمیان نفرتیں بڑھتی گئی ایوب خان اگر اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے دھاندلی نہ کرتا اور صاف شفاف انتخاب کرواتا جس کے نتیجے میں یقینی طور پرفاطمہ جناح کی جیت تھی امید تھی کہ پاکستان سنبھل جاتا، ایوب سے لیکرجنرل یحییٰ کے دور تک یہ تماشے چلتے رہے اورپاکستان کو نقصان ہوتا رہا، یہ وہی دورتھا جس میں جنرل ٹکا خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا تھا اوراسی بات پرہندوؤں نے بنگالیوں کو بھڑکا کراپنا ہم خیال کرلیا اوریوں پاکستان اپنے ایک بازو سے محروم ہوگیا یہ سیاسی تماشوں کے طفیل بہت بڑا نقصان تھا جو ہم کو بھگتنا پڑا۔ یہاں ایک بات ذہین نشین رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنا نااہل حکمران یحییٰ خان آیا شاید ہی کوئی آیا ہو، موصوف کوامور ریاست کی بجائے امور ضیافت پرزیادہ دلچسپی تھی، ان کے نزدیک سب کچھ ان کی خواہشات تھی اور وہ انہی کو پورا کرنے میں مگن رہے وطن چاہے جلتا رہا ٹوٹتا رہا ڈگمگاتا رہا انہیں اس سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں تھا۔

 

اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو مغربی پاکستان میں برسر اقتدارآئے توانہوں نے 1973ء کا متفقہ آئین، ایٹمی صلاحیت کا حصول اورعوامی شعورفراہم کیا جوکہ انکے یادگارکارنامے شمار ہوتے ہیں۔ لیکن1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پی این اے کی تحریک شدت اختیار کرگئی۔ امریکہ کوبھی بھٹو کو ’’عبرت ناک مثال‘‘بنانے کا چانس ملا۔ بھٹو نے بھی اقتدار پرجمے رہنے کیلئے بہت سے غلط کام کیے اوراس وقت کی اپوزیشن نے بھی کرسی پانے کیلئے خوب تماشے لگائے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیاء الحق جس کو بھٹو نے آرمی چیف لگایا تھا نے شب خون مارکراقتدار پرقابض ہوئے اور پاکستان کو پھرسے مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو کو تختہ دارپر لٹکا دیا گیا،سیاسی کارکنوں کو کوڑوں کے تحفے دیے گئے،   امریکہ نے اپنے مقصد پورا کرنے کے بعد جنرل ضیاء الحق سے ہاتھ اٹھا لیا اور وہ عبرتناک طریقے سے اس دنیا سے گئے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹواورنواز شریف 1999 تک دو باراقتدار میں آئے لیکن یہ ادوار بھی محاذ آرائی سیاسی تماشوں اورکرپشن پرمحیط تھے۔ جنرل پرویزمشرف نے 1999ء میں نوازشریف کو حکومت چلتا کیا اوراقتدار کی ڈور خود سنبھال لی۔ انکے 9 سالہ دور میں بھی سیاسی تماشوں نے ملک کی خوب جگ ہنسائی کی،  نائن الیون کے بعد کرسی بچانے کیلئے ٹیلی فون پرامریکہ کی شرطیں مان کر پاکستان کو جنگ میں دھکیل دیا جس میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔

 

 2008ء میں ایک بارپھرجمہوری دورشروع ہوا 2008 سے لیکر اب تک پیپلز پارٹی ن لیگ تحریک انصاف کی حکومت اقتدارمیں آئی۔ اس دورمیں بھی ذاتی مفادات کیلئے تماشے لگائے گئے لیڈران سڑکوں پرنکل پڑے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2008 سے 2013 کا دورمفاہمت کا دور ثابت ہوا گویا مل جل کے اقتدار کے مزے لیے گئے، اس جمہوری دورمیں عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے سیاسی اہمیت حاصل کرلی تھی، سیاسی پنڈتوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی آئندہ انتخابات تک پی پی پی کی پولیٹکس کو محدود کرکے پہلی یا دوسری وفاقی جماعت بن کر ابھرے گی جوکہ سچ ثابت ہوا۔ 2013 سے لیکراب تک ہمیشہ کی طرح عوامی مفاد قومی سلامتی کے نعروں کا سہارا لیکر ذاتی مفاد کے حصول کیلئے جو تماشہ بازی کی گئی وہ ساری قوم کے سامنے ہے اس سارے عرصے میں جو نقصان پاکستان کا ہوا وہ یہ کہ رواداری اخلاقیات کی سیاست کا خاتمہ ہوا اور گالی گلوچ کی سیاست پروان چڑھی اور یہ چیز لیڈران سے نکل کرعام عوام تک جاپہنچی جو کہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔ یہ تو کسی سے دھکی چھپی بات نہیں کہ ان تماشوں کا مقصد اقتدارپر قابض رہنا اورذاتی مفاد کو حاصل کرنا ہوتا ہے اسی آڑ میں پاکستان کوجو نقصان نام نہاد خیرخواہوں نے پہنچایا ہے وہ شاید کسی دشمن نے بھی نہ پہنچایا ہو۔

 

(نوٹ:مندرجہ بالاتحریربلاگرکاذاتی نقطہ نظرہوسکتاہے، ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)