بھٹو زندہ ہے

بھٹو زندہ ہے

سندھ جوآبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ اور پاکستان کی معیشت میں تقریبا 30 فیصد  سے 32 فیصد جی ڈی پی کی آمدنی سندھ سے آتی ہے یہاں دراصل پچھلے 13 سال سے ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جس کی بنیاد روٹی کپڑا اورمکان جیسے نعرے کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ اس پارٹی کے بانی چیئرمین ذولفقارعلی بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھتے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کے ہم لوگوں کو روٹی ،کپڑا اورمکان جیسی بنیادی ضروریات دیں گے۔ لیکن بد قسمتی سے آج ہمیں سندھ میں یہ نعرہ الٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 2008 سے 2021 تک مسلسل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے سندھ میں لیکن سندھ کے لوگوں کے حالات بدلنے کی بجائے 2008 سے بھی بدتر ہو گئے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔

 

کراچی جو کسی وقت پاکستان کا دارلحکومت ہوا کرتا  تھا  ابھی بھی سندھ کا دارلحکومت ہے اور پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں بہت بڑا حصہ دیتا ہے اس وقت وہ دنیا کا سب سے بڑا کوڑا کرکٹ کا شہر بن چکا ہے اس وقت کراچی میں سٹریٹ کرائم عروج پر ہے ہر10 میں سے 5 لوگ اپنی قیمتی چیزوں سے محروم ہو جاتے ہیں کراچی میں لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے سفر کرنے کیلئے ان کے پاس ٹرانسپورٹ نہیں ہے پیدل چلنے کیلئے یا پھر صبح کی واک کیلئے پارکس نہیں ہے کراچی کا حال اس وقت پاکستان کے کسی گاوں سے بھی بدتر ہے ہر طرف نااہلی، بدانتظامی اورکرپشن عروج پر کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ یہی حالات اگرآپ نظردوڑائیں تو اندرون سندھ کے ہیں جہاں کرپشن، نااہلی،ندانتظامی، ڈاکوں راج، قبضہ مافیا اور پانی چوری جیسے کرائم عروج پر ہیں کہیں ہمیں حکومت نام کی چیز نہیں دکھائی دیتی کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ تھرجس کی آبادی1اعشاریہ 6 ملین سے زائد ہے اور رقبے کے لحاظ سے سندھ کے بڑے اضلاع میں شامل ہیں وہاں پچھلے 4 سال میں تقریبا 3800 بچے غذائی قلت سے مر گئے ہیں اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے 2 بچے غذائی قلت سے مر جاتے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔

 

تھر کی عوام کا دارومدار زراعت پر ہے اور یہ بھی تب ممکن ہوتا ہے جب وہاں بارشیں ہوتی ہیں۔تھر کی عوام کے پاس خوراک کی شدید قلت ہوتی ہے جب وہاں بارشیں نہیں ہوتی۔ لیکن بدقسمتی سے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگانے والوں نے تھر کی حالت بدلنے کی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ تھر میں عوام اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ اسی طرح حالت ہے اندرون سندھ کی جہاں لوگوں کے پاس کھانے کیلئے گندم نہیں ہوتی پینے کیلئے صاف پانی نہیں ہوتا کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔سندھ میں لوگوں کے پاس بنیادی صحت کی سہولیات تک میسر نہیں ہیں ہسپتالوں کے نام پر فنڈز منظور کروا لئے جاتے ہیں لیکن اس جگہ ہسپتال ہوتا ہی نہیں۔سکولوں کے فرنیچر کیلئے بجٹ مختص ہوتا ہے لیکن سکولز کا نام و نشان نہیں ہوتا کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ اندرون سندھ پر اس وقت سرداروں اور وڈیروں کا راج ہے۔ ڈاکوں راج اس وقت عروج پر ہے اگرآپ سرداروں اوروڈیروں کا حکم نہیں مانیں گے تو آپ کا پتہ صاف کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔

 

اگر آپ کے نام زمین ہے اور آپ سردار کے نام نہیں لگواتے تو آپ کا خاندان سمیت قتل واجب ہوجاتا ہے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ سندھ کے سرکاری گوداموں میں رکھی گندم جاتی ہے لیکن سال یا دو سال بعد جب آپ چیک کرتے ہیں تو وہاں سے بجری اورمٹی نکلتی ہے،جب سوال کیا جاتا ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ گندم چوہے کھا گئے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ٹریکٹروں کیلئے کسانوں کو سبسڈی دی جاتی ہے لیکن ٹریکٹر کسانوں تک پہنچتے ہی نہیں۔سندھ کی عوام کیلئے کے فور پانی کا منصوبہ شروع کیا جاتا ہے لیکن پچھلے 5 سال سے وہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے فنڈز ہر سال بڑھ جاتے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔سندھ کے کسانوں سے 180 روپے کے حساب سے گنا خریدا جاتا ہے لیکن ان کو رقوم ادا نہیں کی جاتی چینی 100 روپے کلو تک فروخت کی جاتی ہے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔سندھ کے سرکاری سکولوں کو بھینسوں اور بکریوں کے باڑوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے  کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔

 

سندھ کو پچھلے 13 سالوں میں وفاق سے این ایف سی کے نام تقریبا 1600 ارب روپے بجٹ ملا ہے لیکن سندھ کے ہسپتالوں میں کتے کاٹنے کی ویکسین تک دستیاب نہیں۔ مرے ہوئے لوگوں کو گھروں تک میت لے جانے کیلئے ایبولینسز تک نہیں ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔اگر سندھ میں کسی کی حالت بدلی ہے تو وہ ہے اومنی گروپ،ڈاکٹرعاصم،شرجیل انعام میمن،اویس مظفر،جناب زرداری خاندان سندھ حکومت کے پچھلے 13 سالہ اقتدار میں ان لوگوں کے اثاثوں میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔سندھ میں فالودے والے ،ریڑھی والے اور پاپڑ والے کے اکاونٹ سے اربوں روپے نکلتے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔مگر جب آپ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے ان کی کارگردگی کے متعلق سوال کریں گے تو آگے جواب آئے گا وفاق ہمیں پیسے نہیں دیتا،جمہوریت کو خطرہ ہے،سندھ حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہےاور صوبوں سے اختیارات واپس لئے جا رہے ہیں یہ سب کیوں ہوتا ہے کیونکہ سندھ میں بھٹو زندہ ہے۔سندھ میں صحافیوں کو بات نا ماننے پر مار دیا جاتا ہے کیونکہ بھٹو زندہ ہے ۔ججز کو فریال تالپور کی رکنیت معطل کرنے پر راکٹ لانچز سے اڑانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔

 

اسی طرح سندھ میں بیوروکریسی کا حال ہے۔ جو بیوروکریٹ سندھ حکومت کے تابع رہتا ہے اور اپنے بڑوں کا کہنا مانتا ہے اس کے اثاثے خود بخود اربوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔پولیس میں بغیر ٹیسٹ لاکھوں لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ بھٹو کے نام لوگوں کے ضمیر خریدے جاتے ہیں بوریاں بھر بھر کر لوگوں کی بولیاں لگائیں جاتی ہیں جب سوال کرو تو آگے سے جواب ملتا ہے اس وقت ملک میں جمہوریت کو خطرہ ہے جس کیلئے لوگ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دے رہے ہیں ان پچھلے 13 سالوں میں بھٹو کے نام پر جس طرح سندھ کو لوٹا گیا ہے شاید ہی کسی اور جمہوری ملک میں ایسا نہ ہوا ہو۔ان 13 سالوں میں سندھ بالخصوص کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔ سندھ کی عوام تو اب اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں یا اللہ ایسے زندہ بھٹو سے تو مرا ہوا بھٹو ہی اچھا ہے۔

 

(نوٹ:مندرجہ بالا تحریر بلاگر کا ذاتی نقطہ نظرہوسکتا ہے، ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)