معاشرے میں انفرادی کردار کی اہمیت

معاشرے میں انفرادی کردار کی اہمیت

معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور اچھے یا بُرے معاشرے کا تعلق اس معاشرے کے افراد کےانفرادی رویوں سے ہے ، اگر انفرادی طور پر ہر بندہ اپنے آپ کو مثبت رکھے گا تو سارے کا سارا معاشرہ درست سمت میں آگے بڑھے گا مگر یہی افراد اگر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو گئےتو پھر معاشرہ زوال کا شکار ہو جائےگا۔

 

اگر معاشرے میں رہنے والی اکثریت تعلیم کی طرف مائل ہو گی تو معاشرے میں مقابلے کا رجحان بڑھے گا اور نتیجتاً ذہین لوگ معاشرے کا حصہ بنیں گے لیکن اگر معاشرے میں رہنے والے بیشتر لوگ شارٹ کٹ ، فراڈ ، جعل سازی اور دیگر برائیوں میں ملوث ہونگے تو پھراُس معاشرے میں سوائے برائیوں کے کچھ بھی نہ ہوگا ۔ اس کامطلب تویہ ہواکہ جب تک معاشرے کا ایک ایک فرد اپنا مثبت کردارادا نہیں کرےگااس وقت تک نہ تو معاشرہ ترقی کرسکتا ہےاور نہ ہی ملک ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہوسکتاہے۔

آج ہم جب اپنے ارد گرد موجود مختلف برائیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل ہم لوگ اپنی ہی برائیاں بیان کر رہے ہوتے ہیں ، آج ہم اکثر ایک دوسرے سے شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ لوگ مادہ پرست ہو گئےہیں،لوگ ایک دوسرے کی قدر کرنا بھول گئےہیں ، لوگوں میں رحم ختم ہوچکا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن ایک لمحے کے لیے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو حقیقت سے پردہ اٹھے گا کہ ان میں سے بیشتر خصوصیات تو آپ کے اپنےاندر بھی موجود ہیں۔ لہٰذا معاشرے کا گلہ کرنے سے پہلے انفرادی اصلاح بہت ضروری ہے۔

 

دنیاکی آبادی جوں جوں تیزی سےبڑھتی چلی جارہی ہے اسی رفتار سے معاشرتی اور معاشی مسائل بھی بڑھتےچلےجارہے ہیں ۔ پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہےاس تیزی سے ہمارے ملک کے وسائل نہیں بڑھ رہےاورنتیجتاً مسائل میں اضافہ ہوتاچلا جا رہا ہے ۔ مسائل میں اضافے کا بڑا سبب بھی انفرادی رویوں پرمنحصرہے، انفرادی سطح پر بہت کم لوگ ہیں جو کہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں ، کیونکہ جب بھی اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے تو پھر معاشرے کےہرفرد کوکرداراداکرناپڑتاہے۔

 

سب سے پہلےتومعاشرے کوشعور کی ضرورت ہوتی ہےجوکہ تعلیم سےآتا ہے، مگر آج جب ہم اپنے ارد گرد گلی محلوں میں بنائے گئےپرائیویٹ تعلیمی ادارے دیکھتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا کہ تقریباً سب کےسب کاروبارکےلیےبنائےگئے ہیں ناں کہ اپنے معاشرے کی خدمت اور ترقی کے لیے بنائے گئے ہیں ، آج یہ بات زبان زد عام ہے کہ سب سے منافع بخش کاروبار پرائیوٹ سکول اور اکیڈمی بنانا ہے کیونکہ اس میں نہ تو کسی لمبے چوڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ناکامی کی صورت میں کسی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ یعنی کہ دوسرے الفاظ میں ہم آجکل معاشرے میں شعور بیچ رہے ہیں ، جو لوگ شعور خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ خرید لیتے ہیں جبکہ اکثریت اس سے محروم رہتی ہےنتیجتاًشعورحاصل کرنےوالوں کےذہنوں میں بھی مطلب پرستی اورمفاد پرستی ہی پروان چڑھتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے بھی شعور خرید رکھا ہوتا ہے ۔

آج جب ہم ترقی یافتہ قوموں کی کامیابیاں اور اچھائیاں بیان کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہيےکہ اُن قوموں کےافرادنےانفرادی طورپراپنااپناکردار بخوبی نبھایا ہے۔ تب جاکر وہ اس قابل ہوئے ہیں کہ ان کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ جبکہ ان کےمقابلےمیں ہمیں اپنےانفرادی رویوں پردوبارہ سےغور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں ؟

 

ترقی یافتہ ممالک میں لوگ وہاں کے قوانین کو ہر صورت مانتے ہیں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب سب کے لیے قانون کی عملداری لازمی ہے مگر ہمارے ہاں پیسے والا اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ۔ قانون کی عملداری امیر طبقہ کے لیے توہین سمجھا جاتا ہے ، پاکستان میں جب کوئی امیر آدمی قانون توڑتا ہے تو قانون خود اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی دولت سے قانون کو ہی خرید لیتا ہے ۔ ترقی یافتہ اقوام مختلف سرکاری یا غیر سرکاری دفاتر کے باہر قطار میں لگ کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد ہی اپنے کام کرواتی ہیں جبکہ پاکستان میں قطار کو غریب لوگوں کی لائن سمجھاجاتاہے جبکہ پیسے والا باہر و باہر سے اندر تعلقات نکال کر اپنے کام نکلوا لیتا ہے کیونکہ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنے کو یہاں ایک طبقہ اپنی توہین سمجھتا ہے ۔

 

جرائم کی شرح میں اضافہ کا سبب بھی یہی ناانصافی ہے جو کہ امیر اور غریب طبقے کے درمیان تفریق کا باعث ہے ، آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ غریب طبقہ امیر طبقہ کی بظاہر تو عزت کرتا ہے مگر دل ہی دل میں اس سے شدید نفرت کرتا ہے ، کیونکہ یہاں عام آدمی اپنے حقوق سے ہی محروم ہے۔

ہم لوگ سرکاری وسائل کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ، ٹیکس نہ دینے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ، رشوت لینا اور دینا ہمارے معاشرے کا فیشن بن چکا ہے ، نہ رشوت دینے والا اس کو عار سمجھتا ہے اور نہ رشوت لینے والا رشوت کو بُرائی سمجھتا ہے، ہر ناجائزکام ناجائز طریقے سے باآسانی ہوجاتا ہے جبکہ جائز کام کو جائز طریقے سے کروانا بھی ناممکن ہے ۔ جب تک یہ بُرائیاں انفرادی سطح پر ختم نہیں ہوتیں تب تک ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ۔

 

(نوٹ:مندرجہ بالاتحریربلاگرکاذاتی نقطہ نظرہوسکتاہے،ادارہ کااس سےمتفق ہوناضروری نہیں)