پاکستان میں کالم نگاری

پاکستان میں کالم نگاری

 

 

پاکستان میں لکھنےوالوں کوہمیشہ تنقیدکاسامنا کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی فوج کے حق میں لکھے تو وہ آمریت کا حمایتی کہلاتا ہے ، اگر کسی ایک سیاسی پارٹی کےحق میں لکھے تو جھکاؤ کاطعنہ اوراگرحکومت کےحق میںلکھےتولفافہ یافتہ کہلانےکا سہرہ اپنےسرلینا پڑتا ہے۔ سالہا سال بلکہ بیشتر اوقات عشروں تک مفت میں اخبارات اور ویب سائٹس کےلیےلکھ لکھ کراس آس پہ وقت گزارنا پڑتا ہےکہ کبھی تو ہم بھی paid کالمسٹ بن جائیں گے۔

 

یہ ہمارے پرنٹنگ میڈیاکاالمیہ ہےکہ اس کےتواپنےملازمین مہینوں مہینوں تنخواہ کاانتظارکرتےہیں اورتین چارمہینےبعد ایک مہینےکی تنخواہ ہی مقدربنتی ہے ۔ جب اپنے مستقل ملازمین کا یہ حال ہو وہاں پراعزازی لکھنےوالےجوکہ میلوں دورسےاپنی تحاریراخبارات کو ارسال کرتے ہیں ان کوکچھ ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ کئی لکھاری تو باقائدہ طورپرمختلف اخبارات اور ویب سائٹس کےمصنفین کی لسٹ میں شامل ہونے کے باوجود بھی کسی بھی قسم کی اجرت کے حقدارنہیں ٹھہرتے۔

 

پاکستان جیسےملک میں جہاں صحافت ایک مشکل ترین کام ہے اور اس کام کوسرانجام دینےکےلیےہرقدم پھونک پھونک پررکھنےکی ضرورت ہے بالکل اسی طرح یہاں کالم نگاری بھی ایک مشکل ترین کام ہےکیونکہ تحریرلکھتےوقت ہربات ذہن میں رکھنی پڑتی ہےکہ کوئی لفظ کسی بڑے سیاستدان ، افسر ، عدالت یا کسی ادارے کوبرا نہ لگ جائے ۔ حقیقی معنوں میں ابھی تک پاکستان میں آزادئ صحافت پر عمل درآمد نہیں کرایاجاسکاہے، شاید اسی وجہ سے یہاں ہر روز کسی نہ کسی صحافی کو زدوکوب کیاجاتا ہےیا پھرجان سےماردیاجاتاہے۔

 

یہاں پر ذکرچونکہ کالم نگاری کا ہورہا ہے تو کالم لکھنے والوں کے لیےکالم لکھنا اتنا مشکل کام نہیں ہوتا جتنا کہ کسی بڑے اخبار تک رسائی مشکل کام ہے۔ بعض اوقات بلکہ بیشتر اوقات تو “ جان پہچان “ ہی کام آتی ہےکیونکہ جب کسی کالم نگارکا کوئی جاننے والا کسی اخبارکےدفترمیں بیٹھاہوتوپھراس کاکالم شائع ہونےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن جس لکھنے والے کی کسی اخبار میں واقفیت نہ ہو تو پھراس کےلیےاپنےکالم کی جگہ بنوانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔ بیسیوں کالم بھیجنےکےبعد اگرکسی اخبارکےایڈیٹرکےدل میں آجاتا ہےتوپھر اس کےکالم کوجگہ مل جاتی ہے، بس اسی آس پرکہ آئندہ بھی اس کا کالم پبلش ہوگا ۔ مذکورہ کالم نگار مزید محنت سےلکھنا شروع کردیتا ہے لیکن پھر بھی حوصلہ افزا نتائج حاصل نہیں ہوتے، بلکہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہےکہ لکھنے والے مایوس ہوکرلکھنا ہی چھوڑدیتےہیں کہ جب شائع ہی نہیں ہوناتوپھروہ لکھےہی کیوں ؟

 

آج کل چونکہ مفاد پرستی اورکھینچاتانی کا دورہےتوبعض اوقات کسی بھی اچھےلکھاری کے حاسدین بھی اس کا رستہ روکنےکی ہرممکن کوشش کرتے ہیں بلکہ کئی بارتواگرکسی اخبار میں کسی نئےکالم نگار کےکالم پبلش ہوبھی رہے ہوتےہیں توان کو بھی رکوا دیا جاتا ہےاورہر اس اخبارمیں جس میں حاسدین کی جان پہچان ہوتی ہےکو کہہ دیاجاتا ہے کہ اس کالم نگارکاکالم آپ کےاخبار میں نظر نہیں آنا چاہئے۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہےکہ جب کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کا مقابلہ نہیں کرسکتا توپھردوسرے ذرائع سےاس کا رستہ روکنےکی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہےجوکہ حاسدین کے لیے وقتی تسلی کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن اندر ہی اندراپنےآپ کوجلائے رکھنا ہی حاسدین کامقدربنتاہے۔

 

لکھنے والوں کا استحصال نہ جانے کب تک جاری رہے گا ؟ اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کالم نگاری کو باقائدہ پیشہ نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ اگر کوئی لکھنے والا صرف اور صرف مفت میں اخبارات اور ویب سائیٹس کے لیےلکھتا رہےگا تواپنااوراپنےبچوں کا پیٹ کیسےپالےگا ؟ اسی لیےآج ہمیں جوبھی قابل ذکرکالم نگارنظرآتےہیں وہ مختلف اخبارات سے منسلک ہیں ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔جبکہ اُن کالم نگاروں کی تعداد سینکڑوں میں ہےجوکہ اعزازی طورپرلکھتےہیں ۔

 

جہاں تک نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا تعلق ہے تو پاکستان میں ابھی بھی ایسے بہت سارے اخبارات ہیں جو کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر ان کی تحاریر کو اپنے اخبار میں جگہ دیتے ہیں اور یہ ایک بہت مثبت پہلو ہے جس سے نئے لکھنے والوں کو مزید لکھنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے ۔اور یوں نہ صرف اچھے لکھاری اپنا کام جاری رکھتے ہیں بلکہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ مسائل منظرعام پرآتےہیں ۔

 

جبکہ پاکستان کے چند ایک بڑے اخبارات جوکہ پچھلے پچاس ، ساٹھ سالوں سے کام کر رہے ہیں ان میں تو چند ایک گنے چُنے نام ہی ہیں جو کہ مسلسل لکھتےجارہےہیں اورنئےلکھاری ان اخبارات میں جگہ بنانےمیں کامیاب بھی اسی لیے نہیں ہوپاتے کیونکہ “ بڑے لکھاری “ نہیں چاہتےکہ اُن کی اجارہ داری ختم ہو۔

 

ہمارے ملک کے نامی گرامی اخبارات کے نامی گرامی کالم نگار اس قدر غرور میں مبتلا ہیں کہ برس ہا برس سے اپنے لوگوکےنیچےاپنا ای میل ایڈریس لکھنے کے باوجود بھی عام آدمی کی ای میل کاجواب تک نہیں دیتے ۔

 

اپنےملک کے بڑے بڑے اخبارات چونکہ بہت لمبےعرصہ سےکام کر رہے ہیں اس وجہ سےہرمیڈیا گروپ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ اسی لیے ہربڑا اخباراُن مخصوص لوگوں کی تحاریرکوہی پبلش کرتا ہےجوکہ ان کےمفادات کا تحفظ کررہا ہو اور اپنے پسندیدہ سیاستدان یا سیاسی پارٹی کے خلاف لکھی گئی تحاریر کو ردی کی ٹوکری کےنذرکردیتا ہے ۔ چونکہ نئے لکھنے والے نیوٹرل ہو کرلکھ رہےہوتے ہیں یعنی کہ ہر کسی کی خامیوں اورغلطیوں کومنظر عام پرلانےکی کوشش کررہےہوتےہیں، اس لیےبڑے میڈیا گروپ کے اخبارات ان کومسلسل نظراندازکرتےرہتےہیں،جس کی وجہ سے نوجوان لکھاریوں کوشدید مشکلات کاسامناہے۔

 

(نوٹ:مندرجہ بالاتحریربلاگرکاذاتی نقطہ نظرہے،ادارہ کااس سےمتفق ہوناضروری نہیں)