تعلیمِ نسواں کی اہمیت

تعلیمِ نسواں کی اہمیت

 

یہ بات حقیقت ہےکہ پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ خواتین پرمشتمل ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہےکہ ان 50 فیصد خواتین میں سےایک بہت بڑی تعداد دیہی علاقوں میں رہائش پذیرہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں چونکہ ویسے ہی سکولوں کی کمی ہے اور وہاں کا ماحول بھی خواتین کی تعلیم کے لیے سازگار نہیں ہے۔اس لیے وہاں کی خواتین کے لیے تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔

اب اگر بات کی جائے خواتین کی تعلیم کی تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ معاشرے میں ترقی کا دارومدار خواتین کی تعلیم پرہے کیونکہ اگر ماں پڑھی لکھی ہو گی تو وہ اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت بہتر طریقےسےکرسکتی ہے۔ اگر ماں پڑھی لکھی نہ ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم کی جانب کیسے راغب کر سکتی ہے۔اب اگر خواتین کی تعلیم کی اہمیت کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو پڑھی لکھی خواتین کوئی مناسب نوکری کرکے اپنے بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل مہیا کرسکتی ہیں اورساتھ ساتھ اپنااوراپنے خاندان کا معیارِزندگی بھی بہتر بنانےمیں اپناکردارادا کر سکتی ہے۔

ہمارے ہاں پہلی بدقسمتی تویہ ہےکہ لڑکیوں کےلیےویسے ہی تعلیم کو ضروری نہیں سمجھا جاتا اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ 50 فی صد سے زیادہ لڑکیوں کواعلیٰ تعلیم دلوانےکےبعد باعزت روزگارکمانےسے بھی محروم رکھاجاتا ہے۔ جو کہ ہمارے معاشرے کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ جوکہ مرد کا معاشرہ کہلاتا ہے یہاں پر خواتین کےلیےویسے ہی زندگی کسی بڑے امتحان سےکم نہیں ہے۔ ایک اورہمارے معاشرے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہےکہ جو خواتین کسی ادارے یا کمپنی میں نوکری کرتی ہیں ان کےلیےبعض اوقات ایسا ماحول بنا دیاجاتا ہے کہ بہت سی خواتین اپنی جاب ترک کرنے پر مجبورہوجاتی ہیں۔

بطورِمعاشرہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہےکہ ہم تعلیم نسواں کےلیے اپنااپناکردارادا کریں تاکہ ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہوسکے۔ ہم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اپنی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کواس کےجائزحقوق نہیں دیتے۔ تعلیمِ نسواں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہےکہ قرآن واحادیث سے بھی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعلیم حاصل کرنا کسی فرض سےکم نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے کی خواتین کےنہ پڑھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مرد حضرات کی بھی ایک بہت بڑی تعداد تعلیم سے دور ہےاسی لیے وہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم پرکم توجہ دیتے ہیں بلکہ لڑکیوں کو سکول بھیجنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہاں کچھ لوگ ایک خاص لیول یعنی مڈل یا میٹرک تک لڑکیوں کو تعلیم ضروردِلواتے ہیں لیکن اتنی تعلیم شاید کسی اہمیت کی حامل نہیں۔کیونکہ مڈل یا میٹرک تک پڑھنے سےکم ازکم کوئی باعزت روزگارتومل نہیں سکتا۔کچھ لڑکیاں جو کہ آگے پڑھنا چاہتی ہیں ان کو معاشی یا گھریلو مسائل کی وجہ سے پڑھنےسےروک دیاجاتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم نسواں کی اہمیت کا شعور پیداکیاجائے اور لوگوں کو یہ باورکرانا چاہیےکہ خواتین کی تعلیم کس قدر ضروری ہے اوراس میں ان کے اپنے ہی گھر اور خاندان کا مفاد ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیےکہ ہمارے تعلیمی نصاب میں تعلیمِ نسواں کےحوالےسےکوئی خاص مضمون لازمی قراردے تاکہ لوگوں میں شعوراجاگرہوتاکہ ہمارے ملک اور قوم کی خواتین بھی معاشرے کا ایک کارگر رکن بن سکیں۔

حکومت کی عدم توجہی کی انتہا ہے کہ کسی دوردراز کے گاؤں میں اگر لڑکوں کے لیے سیکنڈری سکول ہے تو اُسی گاؤں میں لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول بڑی مشکل سےمیسرہوتا ہے۔ اب ان پسماندہ علاقوں کےلوگ اپنی بچیوں کو کسی اور بڑے شہر میں یا گاؤں میں بھیجنا گوارا نہیں کرتے۔ اس لیے ہر علاقے کےلوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں لڑکوں کے سکول بنوانے کے لیے تو آئے روز کسی نہ کسی ایم۔این۔اے یا ایم۔پی۔اے کے دروازے پرکھڑے نظرآتےہیں اُنہیں کبھی بھی اسی قسم کی کوشش اپنی لڑکیوں کے سکول کے لیےکرتے نہیں دیکھا گیا ، شاید ہمارے دیہی علاقوں میں تو لوگ اپنی خواتین کا پڑھا لکھا ہونا بےعزتی کا باعث سمجھتےہیں۔ تو ہمیں مل کر یہ سوچ تبدیل کرنےکی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے، مرد حضرات کا ذہن تبدیل کیا جائے تاکہ وہ اپنی نرینہ اولاد کے لیے جتنی قربانیاں دیتے ہیں اپنی بیٹیوں کےلیےبھی اسی طرح قربانی دیناسیکھیں تب جا کر ہمارا معاشرہ سُدھرسکتا ہے۔

 

 (نوٹ:مندرجہ بالاتحریربلاگرکاذاتی نقطہ نظرہے،ادارہ کااس سےمتفق ہوناضروری نہیں)